Bol ke lab azad hain tere

Its hight time to unite ourselves to fight against all communal forces

Save India From BJP

Monday, January 11, 2016

غزل

یوں عہد بے اماں ٹھہرا ہوا ہے
کہ جیسے دو جہاں ٹھہرا ہوا ہے

کہانی میری جس پے منحصر ہے
وہی جانے کہاں ٹھہرا ہوا ہے

اسی امید پر کوئی سنے گا
ابھی تک بے زباں ٹھہرا ہوا ہے

بلندی کو ہے پستی کی ضرورت
زمیں پر آسماں ٹھہرا ہوا ہے

ٹھہرنا جس کی فطرت میں نہیں تھا
وہ مجھ میں نا گہاں ٹھہرا ہوا ہے

جو رہبر تھا کہیں وہ کھو گیا ہے
تبھی تو کارواں ٹھہرا ہوا ہے

چلو انعام چلتے ہیں یہاں سے
جہاں وہ جان جاں ٹھہرا ہوا ہے

No comments:

Post a Comment