یوں عہد بے اماں ٹھہرا ہوا ہے
کہ جیسے دو جہاں ٹھہرا ہوا ہے
کہانی میری جس پے منحصر ہے
وہی جانے کہاں ٹھہرا ہوا ہے
اسی امید پر کوئی سنے گا
ابھی تک بے زباں ٹھہرا ہوا ہے
بلندی کو ہے پستی کی ضرورت
زمیں پر آسماں ٹھہرا ہوا ہے
ٹھہرنا جس کی فطرت میں نہیں تھا
وہ مجھ میں نا گہاں ٹھہرا ہوا ہے
جو رہبر تھا کہیں وہ کھو گیا ہے
تبھی تو کارواں ٹھہرا ہوا ہے
چلو انعام چلتے ہیں یہاں سے
جہاں وہ جان جاں ٹھہرا ہوا ہے
No comments:
Post a Comment