بستیاں چھوڑ کے صحرا میں جو آئے ہوئے ہیں
زندگی تیرے ہی یہ لوگ ستائے ہوئے ہیں
جانے والے کبھی واپس نہیں آتے پیارے
لوگ پاگل ہیں جو امید لگائے ہوئے ہیں
جو دیا تم جلایا تھا دیار دل میں
ہم اسے اب بھی ہواؤں سے بچائے ہوئے ہیں
یہ الگ بات ہے تعبیر نہیں ہے ممکن
ہم بھی آنکھوں میں کئی خواب سجائے ہوئے ہیں
ہر طرف شہر میں چھائی ہے گھٹا یادوں کی
بارش غم میں سبھی لوگ نہائے ہوئے ہیں
اب بھی وہ شخص ہمیں یاد بہت آتا ہے
ویسے ماضی کی ہر اک چیز بھلائے ہوئے ہیں
میں نے سوچا تھا محبت سے ملیں گے ہم لوگ
آپ تو جنگ کا ماحول بنائے ہوئے ہیں
انعام عازمی
No comments:
Post a Comment