دل پر ایسے وحشت طاری ہو رہی ہے
جینے میں ہر پل دشواری ہو رہی ہے
کون یہاں پر نوحہ پڑھنے آیا تھا
قبرستان میں آہ و زاری ہو رہی ہے
کام پڑا تو یاد کئے پھر بھول گئے
سب لوگوں کو یہ بیماری ہو رہی ہے
میری چیزیں مجھکو دینے کی خاطر
حیرت ہے اب رائے شماری ہو رہی ہے
دریا خود ہی صحرا بنتا جا رہا ہے
اور پاگل مچھلی بیچاری ہو رہی ہے
تشنہ لب کی پیاس بجھانے کی خاطر
ایک ندی صحرا سے جاری ہو رہی ہے
اس کے خواب کی عادت اتنی پڑ گئی ہے
دن میں سونے کی تیاری ہو رہی ہے
لڑکی اپنا درد سنانے آئی ہے
اور آواز ہماری بھاری ہو رہی ہے
No comments:
Post a Comment