وہ پھول یا کانٹا بنتا ہے
اب دیکھنا ہے کیا بنتا ہے
میں خواب ہوں اک شہزادی کا
مرا نخرہ کرنا بنتا ہے
پھر یاد تمہاری ہے آئی
سگریٹ تو پینا بنتا ہے
تو دوست ہے میرے دشمن کا
اس بات پہ جھگڑا بنتا ہے
مری آنکھ میں آنسو آتے ہیں
جب کوئی تماشہ بنتا ہے
تو سلجھی میں الجھا لڑکا
ترا غصہ ہونا بنتا ہے
ہے موڑ جدائی والا یہ
اس موڑ پہ رونا بنتا ہے
No comments:
Post a Comment