Bol ke lab azad hain tere

Its hight time to unite ourselves to fight against all communal forces

Save India From BJP

Sunday, October 25, 2015

غزل

گہرے  تعلقات سے کچھ فائدہ نہیں
ہم کو ہماری ذات سے کچھ فائدہ نہیں

ساری امیدیں ٹوٹ گئیں خواب مر گئے
مولیٰ مجھے حیات سے کچھ فائدہ نہیں

جو بھی ترے قریب تھے سب کوچ کر گئے
اب تیری کائنات سے کچھ فائدہ نہیں

ہے جسکا انتظار وہ آئیگا ہی نہیں
اب دن سے اور رات سے کچھ فائدہ نہیں

خود از گزشتگاں کی کہانی عجیب ہے
ان سارے واقعات سے کچھ فائدہ نہیں

میں نے کبھی نجات کی مانگی نہیں دعا
معلوم ہے نجات سے کچھ فائدہ نہیں

سب لوگ اپنے بارے میں ہیں سوچتے یہاں
یعنی کسی کی بات سے  کچھ فائدہ نہیں

انعام عازمی

Friday, October 2, 2015

غزل

کا بتائیں کہ کیسا حال ہوا
جو حقیقت تھا سب خیال ہوا

دے رہے ہیں ہمیں تسلی سب
بس یہی سوچ کر ملال ہوا

میں جو برباد کر گیا خود کو
دوسروں کیلئے مثال ہوا

قیس مارے گئے محبت میں
اور مرے ساتھ تو کمال ہوا

زندگی روز قتل کرتی رہی
موت آئی تو انتقال ہوا

تم تو تھے ہی نہیں مرے کیسے
قبر میں ببس یہی سوال ہوا

آہ ابو نہیں رہے

ابو آپ سو جائیے رات کے 12 بج چکے ہیں
بیٹا مجھے نیند نہیں آ رہی ہے آپ سو جائیں میں تھوڑی دیر میں سو جاؤنگا
اس رات ابو تھوڑے پریشان دکھ رہے تھے میں نے بارہا پریشانی کی وجہ معلوم کرنی چاہی مگر ابو نے کچھ  نہیں بتایا
رات کے ایک بجتے ہی مجھے نیند آ گئی ..
صبح جب آنکھ کھلی ایک عجیب سا شور سنائی دیا مجھے لگا سانپ نکلا ہوگا لوگ اسے مار رہے ہونگے
مگر دل کو پھر بھی سکون نہیں ملا تو میں چھت سے نیچے اتر کر یہ جاننے چلا آیا آیا آخر اتنا شور کیوں برپا ہے
وہاں کا منظر دیکھ کر میرے ہوش اڑ گے گھر کے دروازے پر سیکڑوں لوگ جمع تھے میں گھر کے اند داخل ہوا تو دیکھا امی اور کچھ لوگ مل کر ابو کے تلووں کی مالش کر رہے ہیں کچھ ڈاکٹر کو کال کر رہے تھے کچھ امبولنس بلانے کی بات کر رہے میں یہ جاننے کی کوشش کر رہا تھا آخر میرے ابو کو ہوا  کیا ہے یہ بھیڑ کیوں اکٹھا ہے میں ابو کے سامنے پہنچا ابو مجھے دیکھ کر روئے جا رہے تھے مگر کچھ بول نہیں پا رہے تھے میں بار بار سوال کر رہا تھا ابو کیا ہوا ہے آپ کو بتائیے نا? ایسے نا امید ہوکر کیوں دیکھ رہے ہیں مجھے? مگر میرے سوالوں کل جواب دینے والا کوئی نہ تھا
مجھے احساس ہو گیا کہ ابو پہ پھر سے پارا لائسس کا اٹیک ہوا ہے
تھوڑی دیر میں امبولنس آئی ہم ابو کو لیکر پٹنہ کیلئے روانہ ہوئے راستے بھر ﷲ سے میں ایک ہی دعا مانگتا یا ﷲ میرے ابو  کا سایا میرے سر پہ سلامت رکھنا
گاڑی ابھی حاجی پور ہی پہنچی تھی کہ ابو کی سانس تھم گئی ایک کلنک پر لوگوں نے گاڑی روک کر ڈاکٹر  سے ابو کا جائزہ لینے کو کہا ڈاکٹر نے ابو کو چیک کرنے کے بعد اپنے کیبن میں خالو ابو کو بلا کر کیا کہا مجھے نہیں معلوم جب وہ باہر نکلے انکی آنکھوں سے آنسو رکنے کا نام نہیں لے رہے تھے اور میں بارہا یہی سوال کرتا رہا ڈاکٹر نے کیا کہا ? دیکھیے یہ اچھا ڈاکٹر نہیں ہے اسکی باتوں پہ مت آئیے آپ ابو کو لیکر پٹنہ چلیے نا?  میرے سوال پر ہر کوئی مجھے گلے لگا کر رونے لگتا اور میں چیخ چیخ کر کہتا رہا  مجھے ہمدردی کی ضرورت نہیں ہے مجھے ابو کی ضرورت ہے
سب لوگ پھر سے گاڑی میں بیٹھے مجھے تھوڑا سکون ملا میں اپنے ابو کو اچھے ڈاکٹر سے دکھاؤنگا یہ جھوٹے لوگ لوگ ہیں انکی باتوں میں نہیں آنا مجھے  مگر گاڑی واپس موڑ دی گئی

یہ کیا کر رہے ہیں آپ ?  میں نے کہا نا پٹنہ چلنا ہے وہاں اچھے ڈاکٹر ہیں میں جانتا ہوں

خالو ابو میرے سر پر ہاتھ رکھکر بول پڑے بیٹا ابو نہیں رہے

کیا?

ذہن میں طرح طرح کے سوال پیدا ہونے لگے کبھی میں امی کی طرف دیکھتا جو شروع سے لیکر ابتک خاموش تھیں کبھی ابو کی طرف
سوچ رہا تھا گھر جاکر اپنے چھوٹے بھائی کے سوال کیا جواب دونگا جو محض 7سال کا ہے حامدی کو کیسے بتاؤنگا کہ بھائی ہم یتیم ہوگئے آپی کو کیسے سمجھاؤنگا کہ ہمارے ابو اب نہیں ہیں رہے
ہم سیوان پہنچے جہاں 20 سال سے ابو ایک مدرسے میں شیخ الحدیث تھے اور 20 سال سے مسجد میں امامت کے فرائض انجام دے رہے تھے
لوگوں نے کہا ہماری خواہش ہے ہم غسل دیکر جنازے کی نماز ادا کر لیں جمعہ سے پہلے ابو کو غسل دیا گیا اور جمعہ کے نماز کے بعد نماز جنازہ پڑھنے کیلئے لوگ اکٹھا ہونے لگے بھیڑ کو دیکھ کر ہر جگہ چھوٹی نظر آ رہی تھی آخر میں مدارپور کالج کے فیلڈ میں جسے عام طور نیتاؤں کی ریلیوں کیلئے  استعمال کیا جاتا ہے پہلی بار نمازے جنازہ ادا کی گئی جس میں دس ہزار سے زیادہ لوگ شامل تھے
پھر ابو کو لیکر ہم اپنے آبائی وطن پوکھریرا آ گئے یہاں میرے منجھلے بھائی حامدی کے علی گڑھ سے آ جانے پر دوبارہ نمازے جنازہ ادا کی گئ اور سنیچر کے دن نماز عصر کے بعد ابو دفن کئے گئے
ﷲ انہیں جنت میں اعلیٰ سے اعلیٰ مقام عطا فرمائے- آمین

کبھی کبھی تو ایسا لگتا ہوں جیسے میں ایک خواب دیکھ رہا ہوں ایک خوفناک خواب کبھی تو صبح ہوگی کبھی تو کوئی آئیگا مجھے جگانے

مگر نہیں

مجھے اپنی پوری زندگی اسی خوفناک خواب جو ایک حقیقت ہے کہ سائے تلے گزارنی ہوگی

اب تو ہر رات سوتے وقت ایسا گمان ہوتا ہے کہ اب صبح نہیں ہوگی.ابو کے جانے کے بعد جو خلا میرے اند پیدا ہوئی ہے اسکا پر ہونا نا ممکن ہے

میرے اندر اداسی گھر کر چکی ہے میں زندگی سے مایوس ہو چکا ہوں

بس سانس لینے کا نام اگر زندگی ہے تو میں زندہ ہوں ورنہ......

انسان کی زندگی میں نشیب و فراز آتے رہتے ہیں مگر قیامت بس ایک بار آتی ہے اور ہر چیز فنا ہو جاتی ہے تمام خواب آنکھوں میں دفن ہو جاتے ہیں حسرتیں سینے میں دم توڑ دیتی ہیں
انسان کا وجود جل کر راکھ ہو جاتا ہے اور پھر غم کی ایک ایسی بارش ہوتی ہے کہ صفحہ ہستی نام و نشان مٹ جاتا ہے

اور میں مٹ چکا ہوں

Wednesday, September 2, 2015

غزل

درد ہوتا ہے اس قدر مجھ میں
کوئی روتا ہے رات بھر مجھ میں

میں تو ویران ہو گیا لیکن
اب بھی آباد ہے نگر مجھ میں

خوف آتا ہے آئینے سے بھی
یوں سمایا ہے ایک ڈر مجھ میں

سب کو جسکی تلاش ہے وہ شخص
پھر رہا ہے ادھر ادھر مجھ میں

خواہشیں چیخنے لگیں ساری
کوئی ایسے گیا بکھر مجھ میں

بن رہے ہیں سبھی مرے ہمدرد
کون آنے لگا نظر مجھ میں

یوں مجھے ٹھیس لگ گئی خود سے
ہو گئے لوگ دربدر مجھ میں

انعام

Tuesday, September 1, 2015

غزل

پیار اور محبت کے واقعات کے اندر
کچھ نہیں رکھا صاحب التفات کے اندر

آرہی ہے مجھ میں اک چیخ کی صدا کب سے
کون آکے بیٹھا ہے میری ذات کے اندر

میں جو ہوں نہیں ہوں میں جو نہیں ہوں وہ ہوں میں
بات ہے چھپی کتنی ایک بات کے اندر

ختم ہو گئی ہر شے بس نشان باقی ہے
کچھ نہیں بچا یعنی کائنات کے اندر

کیا بتاؤں میں کیسی بے بسی ہے اب لوگوں
اک صدی گزرتی ہے ایک رات کے اندر

غزل

ﺻﺮﻑ ﮐﮩﻨﮯ ﮐﻮ ﮨﻢ ﯾﮩﺎﮞ ﮐﮯ ﮨﯿﮟ
ﻭﺭﻧﮧ ﮨﻢ ﻟﻮﮒ ﻻﻣﮑﺎﮞ ﮐﮯ ﮨﯿﮟ
ﺍﺱ ﺻﺪﯼ ﻣﯿﮟ ﮨﻮﺋﮯ ﮨﯿﮟ ﮨﻢ ﭘﯿﺪﺍ
ﭘﺮ ﯾﮧ ﺳﭻ ﮨﮯ ﮔﺰﺷﺘﮕﺎﮞ ﮐﮯ ﮨﯿﮟ
ﺑﺎﺕ ﯾﮧ ﮨﮯ ﺑﮍﯼ ﺍﺫﯾﺖ ﮐﯽ
ﮨﻢ ﺑﮭﯽ ﺩﻭﺭ ﺍﺱ ﺟﮩﺎﮞ ﮐﮯ ﮨﯿﮟ
ﺁﭖ ﻧﮯ ﮨﻢ ﺳﮯ ﭘﮭﺮ ﭘﺘﮧ ﭘﻮﭼﮭﺎ
کیا ﺑﺘﺎﺋﯿﮟ ﮐﮧ ﮨﻢ ﮐﮩﺎﮞ ﮐﮯ ﮨﯿﮟ
ﮨﻢ ﺯﻣﯿﮟ ﭘﺮ ﮨﯿﮟ ﮐﭽﮫ ﺩﻧﻮﮞ ﮐﯿﻠﺌﮯ
ﯾﻌﻨﯽ ﮨﻢ ﻟﻮﮒ ﺁﺳﻤﺎﮞ ﮐﮯ ﮨﯿﮟ
ﺁﭖ ﻧﮯ ﺁﺝ ﺗﮏ ﻧﮩﯿﮟ ﺳﻤﺠﮭﺎ
ﮨﻢ ﺗﻮ ﺍﮎ ﻭﮨﻢ ﮨﯿﮟ ﮔﻤﺎﮞ ﮐﮯ ﮨﯿﮟ
ﮨﻢ ﮐﺒﮭﯽ ﺧﺘﻢ ﮨﻮ ﻧﮩﯿﮟ ﺳﮑﺘﮯ
ﮨﻢ ﻣﯿﺎﮞ ﻋﮩﺪ ﺑﯿﮑﺮﺍﮞ ﮐﮯ ﮨﯿﮟ

آزادی نظم

ﺁﺅ ﻣﻞ ﮐﺮ ﺷﻮﺭ ﮐﺮﯾﮟ
ﺁﺯﺍﺩﯼ ﮨﮯ
ﺁﺯﺍﺩﯼ ﮐﺎ ﻣﻄﻠﺐ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ ??
ﺁﺯﺍﺩﯼ ﮐﺎ ﻣﻄﻠﺐ ﯾﮧ ﮨﮯ
ﻋﻮﺭﺕ ﮐﯽ ﻋﺼﻤﺖ ﻟﻮﭨﻮ
ﺑﮩﻨﻮﮞ ﮐﻮ ﻧﻨﮕﺎ ﮐﺮ ﺩﻭ
ﺭﯾﭗ ﮐﺮﻭ
ﺁﺯﺍﺩﯼ ﮨﮯ
ﻧﻨﮭﮯ ﻣﻨﮯ ﺑﭽﮯ ﺟﻦ ﮐﮯ
ﮔﮭﺮ ﻣﯿﮟ ﻏﺮﺑﺖ ﮐﺎ ﺳﺎﯾﮧ ﮨﮯ
ﺍﻥ ﮐﻮ ﮨﻮﭨﻞ ﻣﯿﮟ ﺭﮐﮭﻮ
ﺍﻥ ﺳﮯ ﺑﻮﻟﻮ ﮐﺎﻡ ﮐﺮﻭ
ﺍﻥ ﺳﮯ ﺍﻧﮑﺎ ﺑﭽﭙﻦ ﭼﮭﯿﻨﻮ ﺁﺯﺍﺩﯼ ﮨﮯ
ﻣﺠﺒﻮﺭﻭﮞ ﭘﮧ ﻇﻠﻢ ﮐﺮﻭ
ﻣﻔﻠﺲ ﮐﺎ ﻟﻘﻤﮧ ﭼﮭﯿﻨﻮ
ﻻﭼﺎﺭﻭﮞ ﮐﺎ ﺣﻖ ﻟﮯ ﻟﻮ
ﺁﺯﺍﺩﯼ ﮨﮯ
ﺍﻧﺴﺎﻧﻮﮞ ﮐﺎ ﻗﺘﻞ ﮐﺮﻭ
ﻣﺬﮨﺐ ﮐﻮ ﺑﺪﻧﺎﻡ ﮐﺮﻭ
ﻣﺴﺠﺪ ﻣﯿﮟ ﺳﻮٌﺭ ﺭﮐﮫ ﺩﻭ
ﻣﻨﺪﺭ ﻣﯿﮟ ﮔﻮ ﻣﺎﻧﺲ ﺭﮐﮭﻮ
ﺁﺯﺍﺩﯼ ﮨﮯ
ﺍﯾﺴﮯ ﺍﯾﺴﮯ ﮐﭙﺮﮮ ﭘﮩﻨﻮ
ﺟﻨﺴﮯ ﺟﺴﻢ ﮐﺎ ﭘﺮﺩﮦ ﻧﮧ ﮨﻮ
ﺑﻮﺳﯿﺪﮦ ﺍﻭﺭ ﺁﻭﭦ ﺁﻑ ﻓﯿﺸﻦ
ﻟﻮﮒ ﺍﮔﺮ ﮐﭽﮫ ﺑﻮﻝ ﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ
ﺗﻮ ﺍﻥ ﮐﻮ ﭘﺎﮔﻞ ﺳﻤﺠﮭﻮ
ﺁﺯﺍﺩﯼ ﮨﮯ
ﺗﮭﺎﻧﮯ ﺩﺍﺭ ﮐﻮ ﺭﺷﻮﺕ ﺩﻭ
ﻧﯿﺘﺎﺅﮞ ﮐﺎ ﭘﯿﭧ ﺑﮭﺮﻭ
ﺟﺲ ﮐﻮ ﭼﺎﮨﻮ ﮔﺎﻟﯽ ﺩﻭ
ﺟﺲ ﮐﻮ ﭼﺎﮨﻮ ﻗﺘﻞ ﮐﺮﻭ
ﺍﭘﻨﺎ ﻭﻗﺖ ﺍﮔﺮ ﺁﺋﮯ
ﺑﮯ ﺷﺮﻣﯽ ﺳﮯ ﭘﮭﺮ ﺑﻮﻟﻮ
ﯾﮩﺎﮞ ﮐﻮﺋﯽ ﻗﺎﻧﻮﻥ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ
ﺁﺯﺍﺩﯼ ﮨﮯ
ﯾﻌﻨﯽ
ﺁﺯﺍﺩﯼ ﮐﺎ ﻣﻄﻠﺐ ﯾﮧ ﮨﮯ
ﺟﻮ ﺑﮭﯽ ﭼﺎﮨﻮ ﮐﺮ ﺳﮑﺘﮯ ﮨﻮ
ﺟﯿﺴﮯ ﭼﺎﮨﻮ ﮐﺮ ﺳﮑﺘﮯ ﮨﻮ
ﺟﻮ ﺑﮭﯽ ﭼﺎﮨﻮ ------!!
ﺟﯿﺴﮯ ﭼﺎﮨﻮ ........
ﺁﺯﺍﺩﯼ ﮨﮯ
ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ " ﺟﺸﻦِ ﺁﺯﺍﺩﯼ " ﮬَﮯ
( انعام عازمی)