پیار اور محبت کے واقعات کے اندر
کچھ نہیں رکھا صاحب التفات کے اندر
آرہی ہے مجھ میں اک چیخ کی صدا کب سے
کون آکے بیٹھا ہے میری ذات کے اندر
میں جو ہوں نہیں ہوں میں جو نہیں ہوں وہ ہوں میں
بات ہے چھپی کتنی ایک بات کے اندر
ختم ہو گئی ہر شے بس نشان باقی ہے
کچھ نہیں بچا یعنی کائنات کے اندر
کیا بتاؤں میں کیسی بے بسی ہے اب لوگوں
اک صدی گزرتی ہے ایک رات کے اندر
No comments:
Post a Comment