اپنے دل کا امیں نہیں ہوں میں
اس لئے تو یہیں نہیں ہوں میں
مجھکو مجھ میں نہ ڈھونڈیے صاحب
اپنے اندر کہیں نہیں ہوں میں
بات یہ ہے بڑی اذیت کی
میں جہاں ہوں وہیں نہیں ہوں میں
تم کو معلوم ہے میں ہوں لیکن
اے مرے ہم نشیں نہیں ہوں میں
اک صدی سے جو میرے دل میں ہے
اس کے دل کا مکیں نہیں ہوں میں
آج پھر چیخ کر کوئی مجھ میں
کہہ رہا تھا نہیں نہیں ہوں میں
پڑھ لیا میں نے فاتحہ خود پر
کر لیا ہے یقیں نہیں ہوں میں
انعام عازمی
No comments:
Post a Comment