Bol ke lab azad hain tere

Its hight time to unite ourselves to fight against all communal forces

Save India From BJP

Wednesday, October 4, 2017

منقبت-امام عالی مقام

بیٹھے تھے سوگوار پرندے درخت پر
کربل میں وار جب ہوا مستوں کے مست پر

ﷲ کیا مقام ہے چھو کر لب حسین
ہے تشنگی کو ناز بہت اپنے بخت پر

دنیا میں اب یزید کا نام و نشاں نہیں
بیٹھے ہیں اب بھی شاہ محبت کے تخت پر

ہیں زندگی کے بعد بھی زندہ مرے امام
حیرت زدہ ہے موت بھی اپنی شکست پر

مولی بروز حشر مجھے اس کے ساتھ رکھ
اسلام ناز کرتا ہے جس حق پرست پر

ہیں  اس لئے بلند بلندی سے بھی حسین
بیعت نہ کی یزید کے ناپاک دست پر

انعام عازمی

نظم

آؤ گریہ کریں
کپکپاتی ہوئی ان چراغوں کی لو دیکھ کر
جو ہمیں کہہ رہی ہیں کہ اب روشنی ختم ہونے کو ہے
اب یہاں تیرگی اپنے بانہوں کو پھیلائے گی
اور یہ اندھے جنہیں روشنی کاٹتی ہے سدا
اس کی بانہوں میں اپنی ہوس کو مٹانے چلے آئیں گے
آؤ  گریہ کریں
اس بدلتے ہوئے وقت کو دیکھ کر
جس میں اب پریم کی کوئی بھاشا نہیں
کوئی آشا نہیں
جس میں انسانی شکلوں میں چاروں طرف بھیڑئے پھر رہے ہیں
جنہیں
خون کی چاہ ہے
خون بھی وہ جو انسانیت کے طرفدار ہیں
آؤ ماتم کرے
آخری سانس لیتی ہوئی اپنی تہزیب پر
جس کو ہم نے بچانے کا وعدہ کیا تھا کبھی

آؤ ماتم کریں
اور یہ مان لیں
اب کوئی آکے آنکھوں سے نہیں پوچھے گا
اب کوئی آکے ہم سے کہے گا نہیں
"دوستا!! وقت کے ساتھ سب ٹھیک ہو جائے گا"

آؤ گریہ کریں
آہ و زاری کریں
خود کو مٹتے ہوئے دیکھ کر

نظم

ایک نظم بنت آدم کی طرف سے

میں!! یعنی آدم کی بیٹی
زمانے کے ہر مرد سے پوچھتی ہوں
کہ کب تک ہمیں اپنی جھوٹی تسلی سے بہلاؤگے
کب تلک بنت حوا کی چیخوں کو سنگیت کا دھن سمجھتے رہو گے بھلا
کب تلک بنت آدم کی عصمت کی قیمت لگاتے رہو گے یوں ہی
تم جو عورت کو  "بستر" سمجھتے ہو کب یہ سمجھ پاؤ گے
بنت آدم کھلونا نہیں
جن سے تم اپنے ناپاک دل کا کہا مان کر
اپنے اندر ہوس کی بھڑکتی ہوئی آگ ٹھنڈی کرو

جانتی ہوں کے تم
اپنے سطحی خیالوں سے باہر نہیں آؤ گے
اپنے اندر میں پھیلی غلاظت کو تم دھو نہیں پاؤگے

اس لئے بس کرو!!
باطنی کوڑھیوں بس کرو!!
اپنی جھوٹی تسلی کے الفاظ مت دو مجھے

صاف اعلان کر دو "ہمیں راہ چلتی ہوئی لڑکیاں تارنے, سیٹیاں مارنے میں مزہ آتا ہے"
صاف اعلان کر دو کہ "ہم اپنی اوباش نظروں سے عورت کے جسموں سے کپڑے ہٹاتے رہیں گے سدا
ہم نہیں سدھریں گے

انعام عازمی

غزل

بے چینی ہے ماچس لا سگریٹ جلا
بھرنی ہے اندر کی خلا سگریٹ جلا

اس ہر جائی کے جیسا اس دنیا میں
کوئی ہے؟ لا حول لا سگریٹ جلا

جانی تو بھی ہجر منانے آیا ہے
اچھا تو پھر ہاتھ ملا سگریٹ جلا

لوگ اذیت کیوں کہتے ہیں چاہت کو
مجھ پہ اب یہ راز کھلا سگریٹ جلا

کیا پینے سے عمر ہماری گھٹتی ہے؟
ایسا ہے تو اور پلا سگریٹ جلا

آنکھ ہماری خواب کسی کے توبہ ہے
سچ مچ ہے یہ عشق بلا سگریٹ جلا

انعام عازمی

غزل

آنکھوں میں تصویر بسا کے راجکماری کی
اپنی قسمت سے بنجارے نے غداری کی

اس کے بعد کسی نے پھر کمرے میں شمع جلائی
لیکن میری ذات کے اندر رہ گئی تاریکی

اک سگریٹ کا پیکٹ لیکر چھت پر جا پہنچا
اور پھر اس کی یاد سے لڑنے کی تیاری کی

کیلنڈر یہ چیخ کے بولا نام نہ لو اس کا
میں نے جب بھی دیواروں سے بات تمہاری کی

اس سے خود کو مانگ رہا ہوں اب میں رو رو کر
واٹ لگادی یار محبت نے خودداری کی

میں نے مجوری میں اس سے رشتہ توڑا تھا
اور وہ لڑکی سمجھ نہ پائی وقت کی باریکی

یہ جو میں خوش رہتا ہوں نا اس کا راز بتاؤں
گم کر دی ہے چابھی ماضی کی الماری کی

انعام عازمی

غزل

آگ لگی تھی عشق کی اک چنگاری سے
جل گئے خواب ہمارے باری باری سے

میں نے سوچا پھول کی خوشبو آئے گی
آنسو نکلے چاہت کی الماری سے

اپنے ہاتھ میں میرے نام کی ریکھا کھینچ
سوچ رہا ہوں بولوں راجکماری سے

مولی میرے ساتھ پریشانی یہ ہے
خواب نہیں ٹوٹا کرتے بیداری سے

سچ بولوں تو دوست مرے اندر وحشت
آکر بس گئی ہے دل کی غداری سے

اندھیرے سے باہر لانے دنیا کو
سورج نکلا ہے پوری تیاری سے

کھو دیتے ہیں اتنی آسانی سے کیوں؟
جن کو حاصل کرتے ہیں دشواری سے

انعام عازمی

غزل

وہ پھول یا کانٹا بنتا ہے
اب دیکھنا ہے کیا بنتا ہے

میں خواب ہوں اک شہزادی کا
مرا نکھڑا کرنا بنتا ہے

پھر یاد تمہاری آئی ہے
سگریٹ تو پینا بنتا ہے

تو دوست ہے میرے دشمن کا
اس بات پہ جھگڑا بنتا ہے

مری آنکھ میں آنسو آتے ہیں
جب کوئی تماشہ بنتا ہے

تو سلجھی میں الجھا لڑکا
ترا غصہ ہونا بنتا ہے

یہ موڑ جدائی والا ہے
اس موڑ پہ رونا بنتا ہے

انعام