آگ لگی تھی عشق کی اک چنگاری سے
جل گئے خواب ہمارے باری باری سے
میں نے سوچا پھول کی خوشبو آئے گی
آنسو نکلے چاہت کی الماری سے
اپنے ہاتھ میں میرے نام کی ریکھا کھینچ
سوچ رہا ہوں بولوں راجکماری سے
مولی میرے ساتھ پریشانی یہ ہے
خواب نہیں ٹوٹا کرتے بیداری سے
سچ بولوں تو دوست مرے اندر وحشت
آکر بس گئی ہے دل کی غداری سے
اندھیرے سے باہر لانے دنیا کو
سورج نکلا ہے پوری تیاری سے
کھو دیتے ہیں اتنی آسانی سے کیوں؟
جن کو حاصل کرتے ہیں دشواری سے
انعام عازمی
No comments:
Post a Comment