Bol ke lab azad hain tere

Its hight time to unite ourselves to fight against all communal forces

Save India From BJP

Wednesday, October 4, 2017

غزل

کون ہے میرا خریدار نہیں دیکھتا میں
دھوپ میں سایہء دیوار نہیں دیکھتا میں

خواب پلکوں پہ چلے آتے ہیں آنسو بن کر
اس لئے تجھ کو لگاتار نہیں دیکھتا میں

تیرا اس بار مجھے دیکھنا بنتا ہے دوست
اتنی امید سے ہربار نہیں دیکھتا میں

کب تلک تجھ کو یونہی دیکھتے رہنا ہوگا
زندگی جا تجھے اس بار نہیں دیکھتا میں

وہ کوئی اور ہیں جو حسب و نسب دیکھتے ہیں
میں محبت ہوں مرے یار,نہیں دیکھتا میں

ہائے وہ لوگ جو بس دیکھتے رہتے ہیں مجھے
جن کی جانب کبھی اک بار نہیں دیکھتا

غار سے نکلی ہوئی روشنی پرسہ تو کر
آ مجھے دیکھ  ہوں بیمار نہیں دیکھتا میں

انعام عازمی

No comments:

Post a Comment