ٹل گیا ایک حادثہ پھر سے
یعنی کچھ بھی نہیں ہوا پھر سے
شور کرنے لگی ہے خاموشی
کوئی دینے لگا صدا پھر سے
خود سے بیزار ہو گیا ہوں میں
آ گیا کیسا مرحلہ پھر سے
پھر دعا میں اسی کو مانگا ہے
بخش دینا مجھے خدا پھر سے
کوئی امید پھر سے جاگی ہے
جل رہا ہے بہاں دیا پھر سے
عشق ناکام پھر نہ ہو جائے
کر رہا ہوں میں انتہا پھر سے
اپنا قصہ تمام ہونا ہے
آؤ کر لیں کوئی خطا پھر سے
یہ غلط ہے ۔جو تم نے سوچا ہے
میرے بارے میں سوچنا پھر سے
پھر کہانی میں موڑ آیا ہے
کوئی کردار مر گیا پھر سے
بس اسی بات سے ہے اب خطرہ
ہو گئے لوگ با وفا پھر سے
ہو گیا ہے وہ بانٹ کر رخصت
درد ہی درد ہر جگہ پھر سے
انعام عازمی
No comments:
Post a Comment