صحراؤں کی جو پیاس تھے وہ لوگ کیا ہوئے
جتنے وفا شناس تھے وہ لوگ کیا ہوئے
یہ کس مقام پر مجھے لے آئی زندگی
جو میرے آس پاس تھے وہ لوگ کیا ہوئے
اب قہقہوں سے گونج رہا ہے تمہارا شہر
وہ جو بہت اداس تھے وہ لوگ کیا ہوئے
ہم سے تو نا امید ہے ہر شخص اب مگر
وہ جو امید و آس تھے وہ لوگ کیا ہوئے
بانوئے شہر جسم ذرا یہ بتا مجھے
جو درر کی لباس تھے وہ لوگ کیا ہئے
عنوان داستان کا میں تھا ابھی بھی ہوں
جو لوگ اقتباس تھے وہ لوگ کیا ہوئے
ویسے تو نا امید ہوئے ہیں سبھی سے ہم
جو آخری قیاس تھے وہ لوگ کیا ہوئے
انعام عازمی
No comments:
Post a Comment