نہ راستہ ہے نہ منزل نہ ہم سفر کوئی
یہاں سے اٹھ کے بھلا جاے اب کدھر کوئی
اسی امید پہ شب بھر چراغ جلتا رہا
ضرور لوٹ کے آئے گا پھر ادھر کوئی
پتا چلے گا اسے, ہو کے بھی نہیں ہوں میں
مجھے قریب سے دیکھے یہاں اگر کوئی
دیار خواب میں پھر سے تری صدا سن کر
تری تلاش میں بھٹکا ہے رات بھر کوئی
کسی مقام پر اے میری زندگی تجھ سے
تو کیا کرے گی مجھے چھین لے اگر کوئی
انعام
No comments:
Post a Comment