آج کل زندگی
ہے عجب راہ پر گامزن
یہ کہاں جائیگی کچھ خبر ہی نہیں
آج کل ہر گھڑی
ہے تردد کا احساس دل میں مکیں
چیختی ہے صدا میرے اندر کوئی
اک کسک سی ابھرتی ہے دل میں مرے
جیسے میں
اک اداسی کے گہرے سمند میں گر جاؤں گا
گر کے مر جاؤں گا
میں اگر بچ گیا
تو بھی کیا فائدہ
کوئی ایسا نہیں
جو اداسی کے گہرے سمندر سے باہر نکالے مجھے
جو مرا ساتھ دے
جو سنبھالے مجھے
خیر یہ بات ہے بعد کی
یہ محض واہمہ ہے مرا
ان دنوں تو فقط ایک ہی ڈر ہے مجھ کو کہ میں
بڑھ رہا ہوں جدھر
میری منزل کا وہ راستہ ہی نہیں
سچ کہوں ان دنوں
ایسا لگنے لگا ہے مجھے
جیسے اک آگ مجھ میں بھڑک جائے گی
میری ہر خواہشیں راکھ ہو جائیں گی
میرے ہر خواب آنکھوں میں ہی دفن ہو جائیں گے
اور میرا وجود
جو اب ہے ہی نہیں
ختم ہو جائے گا
انعام عازمی
No comments:
Post a Comment