جانے والا بھول چکا ہے
کوئی رستہ دیکھ رہا ہے
خاموشی اب بول رہی ہے
چہرے پہ سب کچھ لکھا ہے
بیچ میں اک دیوار کھڑی ہے
دونوں جانب سے رستہ ہے
آنکھ حقیقت دیکھ رہی ہے
ذہن پھر بھی خواب سجا ہے
"سپنے بھی سچ ہو جاتے ہیں"
جھوٹ ہے یہ,کس نے لکھا ہے؟
چھوٹی ہے چاہت کی چادر
غم کا پاؤں بہت لمبا ہے
نا بینوں کے شہر میں جاکر
کس نے آئینہ رکھا ہے
اس کے جانے سے دنیا میں
کتنا سناٹا پھیلا ہے
نا امیدی کے آنچل میں
امیدوں کا ایک دیا ہے
غم کی ایک کہانی پھر سے
وقت ابھی لکھنے بیٹھا ہے
ڈوب گیا ہے سورج شاید
چاروں جانب اندھیرا ہے
No comments:
Post a Comment