غزل
ہر وقت اب زوال ہے میں ہوں کہ میں نہیں
صورت عجب بحال ہے میں ہوں کہ میں نہیں
تو جانتا ہے مجھکو بہت ہی قریب سے
تجھ سے مرا سوال ہے میں ہوں کہ میں نہیں
تصویر آئینے میں مری مجھ سے ہے الگ
اے یار کیا خیال ہے میں ہوں کہ میں نہیں
آنکھوں میں دفن ہو گئے میرے تمام خواب
اور جسم پایمال ہے ,میں ہوں کہ میں نہیں
ہے کشمکش میں ذات میری کب سے مبتلا
کتنا عجیب حال ہے ,میں ہوں کہ میں نہیں
ہر شخص اب خموش ہے منظر سبھی خموش
دھڑکن کی ایک تال ہے, میں ہوں کہ میں نہیں
رد کر رہی ہے زیست مجھے جس طرح انعام
اب تو یہی سوال ہے میں ہوں کہ میں نہیں
انعام عازمی
No comments:
Post a Comment