کسی نے جب مجھے صحرا کہا تھا
مری آنکھوں میں دریا آ گیا تھا
زمیں پر بعد میں اترے تھے ہم لوگ
ہمارا وقت پہلے جا چکا تھا
مجھے حل کر رہا تھا اور کوئی
میں اپنی زندگی کا مسئلہ تھا
ہماری سوچ زخمی ہو گئی تھی
اچانک ذہن میں تو آ گیا تھا
دکھایا جا رہا تھا یوں تماشہ
تماشائی تماشہ بن گیا تھا
مجھے ملنا تھا خود سے اس لئے میں
ہمیشہ اپنا رستہ دیکھتا تھا
اسے خاموش رہنا پر رہا ہے
جو لڑکا سب سے زیادہ بولتا تھا
No comments:
Post a Comment