طرحی غزل
جو تھی اک شمع روشن, بجھ گئی کیا
اندھیرے کھا گئے سب روشنی کیا
میں خود میں چیختا رہتا ہوں ہر دم
یہی ہوتا رہے گا ہر گھڑی کیا
سمندر کیوں پریشاں ہو رہا ہے
ندی صحرا کے جانب آ گئی کیا
اٹھائے پھر رہے ہیں لاش اپنی
*بھلا ہم کیا ہماری زندگی کیا*
بنے بیٹھے ہیں جب ہم خود کے دشمن
کسی سے اب ہماری دوستی کیا
جو ہم کو آئینہ دکھلا رہے ہیں
انہیں معلوم ہے اپنی کمی کیا
میسر خود کو بھی اب ہم نہیں ہیں
تو آنی چاہیے اس پر ہنسی کیا
خدائے بر تر و بالا بتانا
محبت ابتدا سے ایسی تھی کیا
یہ جو میں سوچتا رہتا ہوں ہر دم
یہ سب سوچا ہے تم نے بھی کبھی کیا
*انعام عازمی*
No comments:
Post a Comment