کبھی کابل کبھی کشمیر بنے رہتے ہو
کس کے قیدی ہو کو ڈرتے ہو رہائی سے تم
خود ہی اپنے لیے زنجیر بنے رہتے ہو
کون سا غم ہے جو دیوار سے لگ جاتے ہو
کون سا دکھ ہے جو تصویر بنے رہتے ہو
کس حقیقت سے سدا بھاگتے رہتے ہو تم
اور کس خواب کی تعبیر بنے رہتے ہو
Save India From BJP