کسی بھی سمت سے مجھکو ہوا نہیں لگتی
میں آج دیکھ کے اس شخص کو اُداس ہوا
مجھے لگا تھا مری بد دعا نہیں لگتی
سنا تھا دل نہیں لگتا بِچھڑ کے تم سے مگر
مجھے تو تم سے بِچھڑ کر غذا نہیں لگتی
تو کیا تمہیں نہیں لگتا کہ جنگ میں ہیں ہم
یہ زندگی تمہیں کیا کربلا نہیں لگتی
بدل گیا ہے ترے بعد شہر خواب و خیال
سو اب یہاں کی بھی آب و ہوا نہیں لگتی
میں بے مدار ہوا ہوں کچھ اس طرح انعام
کوئی بھی شے مجھے اپنی جگہ نہیں لگتی
No comments:
Post a Comment