یہ تو جو اتنے دھیان سے آتا ہے میری سمت
لگتا ہے اک پلان سے آتا ہے میری سمت
دشمن کے راستے میں ہے دیوار اس لیے
ہر زخم مہربان سے آتا ہے میری سمت
جب سوچتا ہوں اب کوئی دشمن نہیں رہا
اِک تیر آسمان سے آتا ہے میری سمت
اس موسم بہار کا اب میں شکار ہوں
سو پھول اس کمان سے آتا ہے میری سمت
خود کو بچائے رکھتا ہوں دشمن کے وار سے
لیکن جو خاندان سے آتا ہے میری سمت
No comments:
Post a Comment