شور برپا ہے کوئی اور نہ صدا ہے مجھ میں
ایسا لگتا ہے کوئی روٹھ گیا ہے مجھ میں
ﻣﺠﮫ ﺳﮯ ﮨﯽ ﺟﻨﮓ ﭘﮧ ﺁﻣﺎﺩﮦ ﮨﮯ ﻣﯿﺮﮮ ﺍﻧﺪﺭ
ﮐﻮﺋﯽ ﻭﺣﺸﯽ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻇﺎﻟﻢ ﮨﮯ ﯾﮧ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ ﻣﺠﮫ ﻣﯿﮟ
اے بھٹکتے ہوئے رہگیر میرے اندر جھانک
تیرا رستہ تیری منزل کا پتہ ہے مجھ میں
غرق ہو جاتی ہیں خوشیاں سبھی مجھ میں آکر
اک اداسی کا سمندر جو چھپا ہے مجھ میں
تو اگر آئیگا مجھ میں تو بکھر جائیگا
تیز بہتی ہوئی بے سمت ہوا ہے مجھ میں
روح زخمی ہے اور جسم ہے ریزہ ریزہ
میرے ہمدرد تو کیا ڈھونڈ رہا ہے مجھ میں
میری امید کی شمعیں نہیں جلنے پاتیں
ایسا لگتا ہے کی طوفان بپا ہے مجھ میں
کچھ نہیں ایسا جو قربان کروں میں تجھ پر
ﺭﻧﺞ ہے ﻏﻢ ﮨﮯ ﺍﺩﺍﺳﯽ ﮨﮯ ﺑﻼ ﮨﮯ ﻣﺠﮫ ﻣﯿﮟ
ﺧﺎﻣﺸﯽ ﭼﯿﺦ ﮐﮯ ﮨﺮ ﺑﺎﺭ ﯾﮩﯽ ﮐﮩﺘﯽ ﮨﮯ
ﺍﺏ ﺑﮭﯽ ﺭﻭﺷﻦ ﺗﺮﯼ ﯾﺎﺩﻭﮞ ﮐﺎ ﺩﯾﺎ ﮨﮯ ﻣﺠﮫ ﻣﯿﮟ
دربدر ہو گئی امید کی موہوم کرن
حادثہ کوئی نیا پھر سے ہوا ہے مجھ میں
اک بھرم جس پے میری ذات تھی زندہ انعام
مجھ کو معلوم ہے وہ ٹوٹ چکا ہے مجھ میں
انعام عازمی
No comments:
Post a Comment