میں سوکھے پیڑ میں ہر روز پانی ڈالوں گا
تمام عمر پرندوں سے پھر دعا لوں گا
بچھڑنے والے کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا
میں اتنی جلدی نیا دوست اک بنا لوں گا
میں بار ہجر اکیلے نہیں اٹھاؤں گا
ترے خلاف بہت جلد فیصلہ لوں گا
جو بے زبان پرندوں کو آسرا نہیں دے
چمن سے ایسے درختوں کو کاٹ ڈالوں گا
ہے آج بھی اسے افسوس اپنے فیصلے پر
وہ اس یقین سے روٹھا تھا میں منا لوں گا
وہ سوچتا ہے کہ میں دستیاب ہوں ہر دم
سو اس کو اب سے قیامت تلک میں ٹالوں گا
میں اجنبی پہ بھروسہ کبھی نہیں کرتا
تو اپنی کار میں کیسے تجھے بٹھا لوں گا
مجھے سہارا نہیں چاہئے کسی کا بھی
جو بوجھ میرا ہے اب میں اسے اٹھا لوں گا
صلیب درد پہ وارا گیا ہوں کتنی بار
میں اپنی ذات کا اک روز جائزہ لوں گا
یہ موڑ اپنی کہانی کہ اختتام کا ہے
میں تجھکو چھوڑ کے اب اپنا راستہ لوں گا
انعام
No comments:
Post a Comment