Bol ke lab azad hain tere

Its hight time to unite ourselves to fight against all communal forces

Save India From BJP

Saturday, February 20, 2016

غزل

نہ راستہ ہے نہ منزل نہ ہم سفر کوئی
یہاں سے اٹھ کے بھلا جاے اب کدھر کوئی

اسی امید پہ  شب بھر چراغ جلتا رہا
ضرور  لوٹ کے آئے گا پھر ادھر کوئی

پتا چلے گا  اسے, ہو کے بھی نہیں ہوں میں
مجھے قریب سے دیکھے یہاں اگر کوئی

دیار خواب میں پھر سے تری صدا سن کر
تری تلاش میں بھٹکا ہے رات بھر کوئی

کسی مقام پر اے میری زندگی تجھ  سے
تو کیا کرے گی مجھے چھین لے اگر کوئی

انعام

غزل

سب لوگ جی رہے ہیں یہاں بے دلی سے کیوں
بیزار ہو گئے ہیں سبھی زندگی سے کیوں

اے میر کارواں ہمیں اتنا تو اب بتا
ہم دور ہو رہے ہر اک آدمی سے کیوں

ہے منصفین وقت کا ہر فیصلہ غلط
آواز آ رہی ہے یہی ہر  گلی سے کیوں

ویسے تو نا امید ہوئے ہیں سبھی سے ہم
لیکن مجھے گلہ ہے تو بس آپ ہی سے کیوں

تم تو سوچتے بہت ہو ذرا یہ بھی سوچنا
خطرہ ہے میری عقل کو اب آگہی سے کیوں

انعام

غزل

ﺭﻧﺞ ﻭ ﻏﻢ ﮐﻮ ﺑﺤﺎﻝ ﮐﺮ ﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ
ﺁﺝ ﮐﻞ ﮨﻢ ﮐﻤﺎﻝ ﮐﺮ ﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ
ﺫﺍﺕ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﯽ ﺭﺍﺋﯿﮕﺎﮞ ﮐﺮﮐﮯ
ﮐﺎﻡ ﮨﻢ ﺑﮯ ﻣﺜﺎﻝ ﮐﺮ ﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ
ﺑﺎﺕ ﺣﯿﺮﺍﻥ ﮐﻦ ﺗﻮ ﮨﮯ ﻟﯿﮑﻦ
ﺍﺏ ﮨﻢ ﺍﭘﻨﺎ ﺧﯿﺎﻝ ﮐﺮ ﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ
ﺟﺐ ﮨﯿﮟ ﺳﺎﺭﮮ ﺟﻮﺍﺏ ﺑﮯ ﻣﻌﻨﯽ
ﺁﭖ ﺑﯿﺠﺎ ﺳﻮﺍﻝ ﮐﺮ ﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ
ﮐﺮ ﮐﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﻣﺨﺎﻟﻔﺖ ﮨﻢ ﺑﮭﯽ
ﮐﭽﮫ ﺩﻧﻮﮞ ﺳﮯ ﮐﻤﺎﻝ ﮐﺮ ﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ
ﺁﭖ ﮨﯿﮟ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﻣﮕﺮ ﺍﺏ ﺁﭖ
ﻣﯿﺮﺍ ﺟﯿﻨﺎ ﻣﺤﺎﻝ ﮐﺮ ﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ
ﮐﯿﺎ ﮐﮩﺎ ﺗﮭﺎ ؟ ﺑﭽﮭﮍ ﮐﮯ ﺟﯽ ﻟﯿﻨﮕﮯ
ﺁﭖ ﺗﻮ ﺍﺏ ﻣﻼﻝ ﮐﺮ ﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ
ﺍﻧﻌﺎﻡ

Monday, February 15, 2016

غزل

صحراؤں کی جو پیاس تھے وہ لوگ کیا ہوئے
جتنے وفا شناس تھے وہ لوگ کیا ہوئے

یہ کس مقام پر مجھے لے آئی زندگی
جو میرے آس پاس تھے وہ لوگ کیا ہوئے

اب قہقہوں سے گونج رہا ہے تمہارا شہر
وہ جو بہت اداس تھے وہ لوگ کیا ہوئے

ہم سے تو نا امید ہے ہر شخص اب مگر
وہ جو امید و آس تھے وہ لوگ کیا ہوئے

بانوئے شہر جسم ذرا یہ بتا مجھے
جو درر کی لباس تھے وہ لوگ کیا ہئے

عنوان داستان کا میں تھا ابھی بھی ہوں
جو لوگ اقتباس تھے وہ لوگ کیا ہوئے

ویسے تو نا امید ہوئے ہیں سبھی سے ہم
جو آخری قیاس تھے وہ لوگ کیا ہوئے

انعام عازمی

غزل

بس خنجر ہی خنجر دیکھنا پڑتا ہے
اکثر ایسا منظر دیکھنا پڑتا ہے

جب چہروں کے رنگ بدلنے لگتے ہیں
تب چہروں کے اندر دیکھنا پڑتا ہے

قسمت میں وہ لمحیں بھی ہوتے ہیں جب
آئینہ بھی ڈر کر دیکھنا پڑتا ہے

بڑھ جاتے ہیں اپنی حد سے زیادہ جو
سب کچھ ان کو جھک کر دیکھنا پڑتا ہے

دل وہ گھر ہے جس میں جانے سے پہلے
باہر رہکر اندر دیکھنا پڑتا ہے

جو دکھتا ہے ویسا ہوتا ہے لیکن
کچھ منظر کو ہٹ کر دیکھنا پڑتا ہے

Friday, January 29, 2016

غزل

فکر و آہنگ جدا کیف عظیم آبادی
کوئی تجھ سا نہ ہوا کیف عظیم آبادی

مثل قطرہ تھے ترے سامنے سب اہل ادب
تم تھے گھنگھور گھٹا کیف عظیم آبادی

تم سے آباد تھی ہر شعر و سخن کی محفل
تھے سبھی تم پہ فدا کیف عظیم آبادی

تیرے جانے سے ادب میں جو ہوئی تھی پیدا
پر نہ ہو پائی خلا کیف عظیم آبادی

چیخ کر اب بھی سر شام بلاتی ہے تمہیں
کتنی مایوس صدا کیف عظیم آبادی

سر نگوں ہو کے چلو تعزیت پیش کریں
ہوگئے ہم سے جدا کیف عظیم آبادی

انعام

نظم

سنو اے نیک دل لڑکی
تم اکثر پوچھتی ہو نا
محبت مجھ سے کرنے کی وجہ کیا ہے؟
سنو! تم کو بتا تا ہوں
محبت تم سے کرنے کی اگر کوئی وجہ ہوتی
تو میں تم کو بتا دیتا
مجھے تم سے محبت ہے
مگر کیوں ہے ؟
مجھے خود بھی نہیں معلوم

سنو اے نیک دل لڑکی
پڑھا ہوگا کہیں تم نے
سنا ہوگا کبھی تم نے
"محبت دو دلوں کے درمیاں پاکیزہ رشتہ ہے"
سنو لڑکی
تمہارے اور میرے درمیاں جو پاک رشتہ ہے
مجھے لگتا ہے  یہ رشتہ
جہاں آباد ہونے سے بہت پہلے
زمیں ایجاد ہونے سے بہت پہلے
خدا نے جب
تمہارے اور میرے روح کی تخلیق کی ہوگی
ہماری قسمتیں لکھی گئی ہونگی
سنو لڑکی!
اسی قسمت کے پنے میں
فرشتوں نے
ہمارے درمیاں اک ربط  باہم بھی لکھا ہوگا
ہمارے درمیاں اک پاک رشتہ بھی لکھا ہوگا
مگر اس کی وجہ لکھی نہیں ہوگی
بتاؤ پھر ؟
تمہیں کیسے بتاؤں میں؟
محبت تم سے کرنے کی وجہ کیا ہے
اگر کوئی وجہ ہوتی
بتا دیتا

انعام