دل بیزار میں کچھ بھی نہیں ہے
مرے سنسار میں کچھ بھی نہیں ہے
یہ کس پاگل نے تم سے کہہ دیا ہے
نگاہ یار میں کچھ بھی نہیں ہے
سنا ہے بک گیا وہ شخص بھی کل
تو اب بازار میں کچھ بھی نہیں ہے
پھر اک بیوہ کی عصمت لٹ گئی ہے
نیا اخبار میں کچھ بھی نہیں ہے
وفا اخلاص قربانی مروت
تری سرکار میں کچھ بھی نہیں ہے
وہیں پہ سر بسجدہ ہو گئے سب
جہاں دربار میں کچھ بھی نہیں ہے
یقیناً مصلحت کوئی تو ہوگی
یہاں بیکار میں کچھ بھی نہیں ہے
انعام عازمی
No comments:
Post a Comment