اس نے جب چھوڑ دیا مجھکو سسکنے کیلئے
ہے کہانی میں یہی موڑ بچھڑنے کیلئے
تم محبت کی کوئی شمع جلاکر دیکھو
ہم تو پروانے ہیں آ جائینگے جلنے کیلئے
فرقت یار میں جو حال ہوا ہے اپنا
اب تو اک رات ہی کافی ہے بکھرنے کیلئے
ایسے حالات میں دشوار ہے جینا بالکل
حادثہ کوئی تو ہو پھر سے سنبھلنے کیلئے
ہم جہاں کے ہیں وہیں ہم کو چلے جانا ہے
زندگی ہم کو عطا کی گئی مرنے کیلئے
سچ بتاؤں تو مجھے ان سے بہت خطرہ ہے
وہ جو آتے ہیں مرے زخم کو بھرنے کیلئے
لرکھڑاتے ہوئے چلنا ہے یہاں کا دستور
حوصلہ چاہئیے اس شہر میں چلنے کیلئے
میں نے امید کی ہر شمع بجھا دی جاناں
دل ہی کافی ہے تری یاد میں جلنے کیلئے
زندگی نے جو مجھے زخم دیا ہے انعام
موت کافی نہیں اس زخم کو بھرنے کیلئے
No comments:
Post a Comment