میں جب بھی اپنے اندر دیکھتا ہوں
بہت ویران منظر دیکھتا ہوں
مجھے ملتے ہیں بس ٹوٹے ستارے
میں جب اپنا مقدر دیکھتا ہوں
کوئی صدیوں سے مجھ میں چیختا ہے
میں ایسے خواب اکثر دیکھتا ہوں
بسا کرتے تھے جن آنکھوں میں سپنے
میں اب ان میں سمندر دیکھتا ہوں
وہ خود کو دور کو لیتا ہے مجھ سے
اسے میں جب بھی کو بڑھ کر دیکھتا ہوں
ہوئے سب خواب میرے ریزہ ریزہ
میں اب پہلے سے بہتر دیکھتا ہوں
یہ منظر تھا کبھی آباد شاید
میں ان میں رنگ بھر کر دیکھتا ہوں
انعام عازمی
No comments:
Post a Comment