عمار اقبال کی زمین پر میری کوشش
دل پرستی سے عشق ہو گیا ہے
یعنی غلطی سے عشق ہو گیا ہے
جب سے دیکھا ہے اسکی آنکھوں کو
مئے پرستی سے عشق ہو گیا ہے
میں مسافر ہوں اس لئے مجھکو
راہ چلتی سے عشق ہو گیا ہے
بس یہی بات ہے اذیت کی
خود پرستی سے عشق ہو گیا ہے
سن مرے خواب والی لڑکی سن
تیرے جیسی سے عشق ہو گیا ہے
ہوں پرانے خیال کا مجھکو
ایسی ویسی سے عشق ہو گیا ہے
بس مجھے ایک شخص کی خاطر
"ساری بستی سے عشق ہو گیا ہے"
اب کنارے کی آرزو کیسی
مجھکو کشتی سے عشق ہو گیا ہے
دیکھ کر سادگی بھکارن کی
تنگدستی سے عشق ہو گیا ہے
انعام عازمی
No comments:
Post a Comment