میں نے اس رستے سے جانا ہوتا ہے
جس پر ہر دم دھوکہ کھانا ہوتا ہے
دوست محبت کرنا بھی آسان نہیں
پتھر کو احساس دلانا ہوتا ہے
تم کیا جانو ہجرت کس کو کہتے ہیں
تم نے تو بس راہ دکھانا ہوتا ہے
چھت آپس میں مل جاتے ہیں,آنگن کو
دیواروں کا بوجھ اٹھانا ہوتا ہے
اس بستی میں رہنے والے جانتے ہیں
طوفانوں کا کیسے آنا ہوتا ہے
تم کیوں ان سے اتنی قربت رکھتی ہو
جن کو میں نے دشمن مانا ہوتا ہے
ہو سسکتا ہے دشمن تھوڑا بدھو ہو
لیکن ہر ایک دوست سیانا ہوتا ہے
کوزے پر ہر آن قیامت آتی ہے
تم نے تو بس چاک گھمانا ہوتا ہے
سچ مچ میں سگریٹ نہیں پیتا ہوں دوست
میں نے اس کو صرف ستانا ہوتا ہے
No comments:
Post a Comment