Bol ke lab azad hain tere

Its hight time to unite ourselves to fight against all communal forces

Save India From BJP

Saturday, August 6, 2016

غزل

مجھ سے اک شخص پھر خفا ہوا ہے
میں نہیں جانتا کہ کیا ہوا ہے

اپنے اندر نہیں ہوں میں لیکن
مجھ میں اب تک کوئی رکا ہوا ہے

جب میں ساری سزائیں کاٹ چکا
تب مرے حق میں فیصلہ ہوا ہے

شاخ سے اڑ گئے پرندے کیا
کیوں درختوں کا منہ بنا ہوا ہے

ایک میں ہوں مرا سوا مجھ میں
دوسرا کون آ گیا ہوا ہے

یہ محلہ بھی تھا کبھی آباد
دل کی دیوار پر لکھا ہوا ہے

آ رہی ہے صدائیں چیخنے کی
مجھ میں پھر کوئی حادثہ ہوا

کیا کہا عشق ہو گیا ہے تمہیں
جو ہوا ہے بہت برا ہوا ہے

غزل

تمنا جس کی تھی ہم کو اسے پانا ضروری تھا
محبت میں حدوں کو پار کر جانا ضروری تھا

دیا امید کا روشن تھا میرے دل کے آنگن میں
مخالف تھی ہوا یادوں کی گھبرانا ضروری تھا

تمہاری یاد میں کوئی بہت ٹوٹا بہت بکھرا
تمہارا لوٹ کر اے جان جاں آنا ضروری تھا

کہانی ایک ایسے موڑ پر آکر رکی اپنی
ہمیں ہنستے ہوئے اس سے بچھڑ جانا ضروری تھا

ضرورت کیا تھی شمع پر بھلا یوں جان دینے کی
کہا ہنستے ہوئے سب سے یہ پروانہ, ضروری تھا

غزل

عشق کو ذات کا عنوان نہیں کر سکتا
روح کو اور پریشان نہیں کر سکتا

پیار میں اس نے وہی شرط رکھی ہے یارو
جس کو پورا کوئی انسان نہیں کر سکتا

مجھکو چہرے پہ لکھا پڑھنا نہیں آتا ہے
میں کسی شخص کی پہچان نہیں کر سکتا

یاد ماضی اگر آتی ہے یہی سوچتا ہوں
یار اتنا برا بھگوان نہیں کر سکتا

دل کی اب بات سمجھنی ہے نہ سمجھانی ہے
عقل کو اور میں حیران نہیں کر سکتا

اپنے راجہ کو بچانے کیلئے منتری دوں؟؟؟
میں تو پیادہ بھی بلیدان نہیں کر سکتا

یار میں تجھکو تسلی نہیں دے سکتا ہوں
تیری مشکل کو جب آسان نہیں کر سکتا

یاد کے گہرے سمندر کو ابھی پار کروں؟
تیز ہے وقت کا طوفان,نہیں کر سکتا

تجھکو جانے کی اجازت نہیں دے سکتا ہوں
اپنی بستی کو میں ویران نہیں کر سکتا

رات کے بارہ بجے کال کروں میں تم کو؟؟
نیند پیاری ہے مری جان,نہیں کر سکتا

مجھ کو دنیا میں اتارا گیا ہے اس کے لئے
میں کسی اور طرف دھیان نہیں کر سکتا

Monday, July 11, 2016

غزل

منزل ہوں,راستہ ہوں نہیں جانتا ہوں میں
اے میرے دوست کیا ہوں نہیں جانتا ہوں میں

ہے دل مرا اداس مری آنکھ اشک بار
کس غم میں مبتلا ہوں نہیں جانتا ہوں میں

میرے خیال و خواب میں رہتا ہے کون اب
میں کس کو سوچتا نہیں جانتا ہوں میں

مقتل سے آ رہی ہے صدا میرے نام کی
کیوں قتل ہو رہا ہوں نہیں جانتا ہوں میں

ٹکڑا رہا ہوں یادوں کے پتھر سے بار بار
کس سمت آ گیا ہوں نہیں جانتا ہوں میں

سب نا امید ہوکے ترے شہر سے گئے
میں کس لئے رکا ہوں نہیں جانتا ہوں میں

یہ کون مجھکو  رائیگاں کرنے کو ہے بضد
میں کس کو مل گیا ہوں نہیں جانتا ہوں میں

انعام عازمی

Sunday, July 3, 2016

غزل

بستیاں چھوڑ کے صحرا میں جو آئے ہوئے ہیں
زندگی تیرے ہی یہ لوگ ستائے ہوئے ہیں

جانے والے کبھی واپس نہیں آتے پیارے
لوگ پاگل ہیں جو امید لگائے ہوئے ہیں

جو دیا تم جلایا تھا دیار دل میں
ہم اسے اب بھی ہواؤں سے بچائے ہوئے ہیں

یہ الگ بات ہے تعبیر نہیں ہے ممکن
ہم بھی آنکھوں میں کئی خواب سجائے ہوئے ہیں

ہر طرف شہر میں چھائی ہے گھٹا یادوں کی
بارش غم میں سبھی لوگ نہائے ہوئے ہیں

اب بھی وہ شخص ہمیں یاد بہت آتا ہے
ویسے ماضی کی ہر اک چیز بھلائے ہوئے ہیں

میں نے سوچا تھا محبت سے ملیں گے ہم لوگ
آپ تو جنگ کا ماحول بنائے ہوئے ہیں

انعام عازمی

غزل

غزل

گھٹا جب رنج کی  چھائے تو واپس لوٹ آنا تم
تمہیں جب چین نہ آئے تو واپس لوٹ آنا تم

میں تم سے ضد نہیں کرتا کہ واپس لوٹنا ہوگا
تمہارا دل اگر چاہے تو واپس لوٹ آنا تم

غموں کی دھوپ میں ہر دم تمہارا ساتھ دینگے ہم
سہانی شام ڈھل جائے تو واپس لوٹ آنا تم

سنو سورج محبت کا کبھی ڈھلنے لگے ,یا پھر
بڑھیں جب درد کے سائے تو واپس لوٹ آنا تم

ابھی آباد ہے گلشن  تمہارا خوش رہو جاناں
اگر ویران ہو جائے تو واپس لوٹ آنا تم

اداسی اک سمندر ہے سنو تم کو اگر اس کے
کنارے پر کوئی لائے تو واپس لوٹ آنا تم

مبارک ہو نیا کردار جان من تمہیں لیکن
کہانی ختم ہو جائے تو واپس لوٹ آنا تم

انعام عازمی

عید آئی ہے

سنو بابا
تمہیں معلوم ہی ہوگا
کہ پھرسے عید آئی ہے
میں بچوں کی طرح تم سے بہت کچھ مانگنے والا نہیں بابا
مرے بابا
مجھے عیدی نہیں لینی
نئے کپڑوں کی خواہش بھی نہیں مجھکو
مگر بابا
تمہیں تو یاد ہوگا نا
کہ جب بھی عید آتی تھی
تم اپنے ہاتھ سے  ہم تینوں بھائی  کو سدا خوشبو لگاتے تھے
مرے بابا
مجھے خوشبو لگا دونا
مرے بابا
کوئی جب اپنے بابا سے نئے کپڑے سلا دینے کو کہتا ہے
تمہاری یاد آتی ہے
کوئی جب اپنے بابا سے یہ کہتا ہے میں  عیدی اتنے پیسوں سے ذرا بھی کم نہیں لوں گا
تمہاری یاد آتی ہے
مرے بابا
کسی بیٹے کو جب بھی باپ کی انگلی کو تھامے عید گاہ جاتے ہوئے میں دیکھتا ہوں تو
تمہاری یاد آتی ہے
کوئی جب اپنے بیٹوں کے سروں پر ہاتھا رکھ کر کامرانی کی دعائیں دینے لگتا ہے
تمہاری یاد آتی ہے
سنو بابا

اگر ممکن ہو واپس لوٹ آؤ نا
تمہیں معلوم ہی ہوگا
کہ پھرسے عید آئی ہے

انعام عازمی