مجھ سے اک شخص پھر خفا ہوا ہے
میں نہیں جانتا کہ کیا ہوا ہے
اپنے اندر نہیں ہوں میں لیکن
مجھ میں اب تک کوئی رکا ہوا ہے
جب میں ساری سزائیں کاٹ چکا
تب مرے حق میں فیصلہ ہوا ہے
شاخ سے اڑ گئے پرندے کیا
کیوں درختوں کا منہ بنا ہوا ہے
ایک میں ہوں مرا سوا مجھ میں
دوسرا کون آ گیا ہوا ہے
یہ محلہ بھی تھا کبھی آباد
دل کی دیوار پر لکھا ہوا ہے
آ رہی ہے صدائیں چیخنے کی
مجھ میں پھر کوئی حادثہ ہوا
کیا کہا عشق ہو گیا ہے تمہیں
جو ہوا ہے بہت برا ہوا ہے
No comments:
Post a Comment