بادل کی ہر بات مکمل جھوٹی ہے
بارش نے صحرا کی عزت لوٹی ہے
رستے کی تعمیر نہیں کی ہے میں نے
وہ دیوار تو خود ہی گر کر ٹوٹی ہے
میں ساحل پہ ہوں کشتی منجھدار میں ہے
میں چھوٹا ہوں یا پھر کشتی چھوٹی ہے
سب پیاسے صحرا میں آکر بیٹھے ہیں
یعنی اس دریا کی قسمت پھوٹی ہے
میں نے خواب میں اس کو چھو کر دیکھا تھا
تب سے نیند کی دیوی مجھ سے روٹھی ہے
No comments:
Post a Comment