تمنا جس کی تھی ہم کو اسے پانا ضروری تھا
محبت میں حدوں کو پار کر جانا ضروری تھا
دیا امید کا روشن تھا میرے دل کے آنگن میں
مخالف تھی ہوا یادوں کی گھبرانا ضروری تھا
تمہاری یاد میں کوئی بہت ٹوٹا بہت بکھرا
تمہارا لوٹ کر اے جان جاں آنا ضروری تھا
کہانی ایک ایسے موڑ پر آکر رکی اپنی
ہمیں ہنستے ہوئے اس سے بچھڑ جانا ضروری تھا
ضرورت کیا تھی شمع پر بھلا یوں جان دینے کی
کہا ہنستے ہوئے سب سے یہ پروانہ, ضروری تھا
No comments:
Post a Comment