خوشی کی ناؤ پہ غم کو سوار کر رہے تھے
ہم اک صدی سے ترا انتظار کر رہے تھے
اسی لئے تو پرندوں نے بد دعا دی تھی
تمام لوگ درختوں پہ وار کر رہے تھے
جو ایک بات مجھے رنج دینے والی تھی
مرے عزیز وہی بار بار کر رہے تھے
جو تیر سکتے تھے کشتی کے انتظار میں تھے
جو ڈوب سکتے تھے دریا کو پار کر رہے تھے
نہ میرے دوست ,نہ دشمن,نہ میرے اپنے تھے
وہ اور لوگ تھے جو مجھ سے پیار کر رہے تھے
No comments:
Post a Comment