ٹوٹی ہوئی کشتی کا سہارا نہیں ہونا
دریا مجھے رہنا ہے کنارا نہیں ہونا
اب کس لئے اے دوست ترے شہر میں ٹھہریں
جب کہہ دیا اس نے کہ تمہارا نہیں ہونا
اے عشق مری تجھ سے ہے بس ایک گزارش
میں ٹوٹ گیا مجھکو دوبارہ نہیں ہونا
لوگوں نے مجھے دیکھنا بھی چھوڑ دیا ہے
اب مجھکو کسی صبح کا تارا نہیں ہونا
اے دوست تعلق نہیں رکھنا ہے کسی سے
اب مجھکو کسی شخص کا یارا نہیں ہونا
No comments:
Post a Comment