Bol ke lab azad hain tere

Its hight time to unite ourselves to fight against all communal forces

Save India From BJP

Wednesday, August 24, 2016

غزل

صحرا کی آنکھوں میں دریا دیکھا ہے
نا ممکن کو ہم نے ہوتا دیکھا ہے

میں جنگل سے بات نہیں کرنے والا
میں نے ایک پرندہ روتا دیکھا ہے

دیوانے کی آنکھیں سب کچھ کہتی ہیں
اس نے اپنے خواب میں کیا کیا دیکھا ہے

خوابوں کی تعبیر جہاں پر ممکن ہے
کس نے اس بستی کا رستہ دیکھا ہے

تم کو کیا جانو وحشت کس کو کہتے ہیں
تم نے بس وقت سنہرا دیکھا ہے

مجھ کو توڑ کے  رستے تعمیر کرو
میں نے ہر دیوار پہ لکھا دیکھا ہے

آخر دل نے پوچھ ہی ڈالا آنکھوں سے
تم نے کیوں اس شخص کو اتنا دیکھا ہے

No comments:

Post a Comment