صحرا کی آنکھوں میں دریا دیکھا ہے
نا ممکن کو ہم نے ہوتا دیکھا ہے
میں جنگل سے بات نہیں کرنے والا
میں نے ایک پرندہ روتا دیکھا ہے
دیوانے کی آنکھیں سب کچھ کہتی ہیں
اس نے اپنے خواب میں کیا کیا دیکھا ہے
خوابوں کی تعبیر جہاں پر ممکن ہے
کس نے اس بستی کا رستہ دیکھا ہے
تم کو کیا جانو وحشت کس کو کہتے ہیں
تم نے بس وقت سنہرا دیکھا ہے
مجھ کو توڑ کے رستے تعمیر کرو
میں نے ہر دیوار پہ لکھا دیکھا ہے
آخر دل نے پوچھ ہی ڈالا آنکھوں سے
تم نے کیوں اس شخص کو اتنا دیکھا ہے
No comments:
Post a Comment