عشق کو ذات کا عنوان نہیں کر سکتا
روح کو اور پریشان نہیں کر سکتا
پیار میں اس نے وہی شرط رکھی ہے یارو
جس کو پورا کوئی انسان نہیں کر سکتا
مجھکو چہرے پہ لکھا پڑھنا نہیں آتا ہے
میں کسی شخص کی پہچان نہیں کر سکتا
یاد ماضی اگر آتی ہے یہی سوچتا ہوں
یار اتنا برا بھگوان نہیں کر سکتا
دل کی اب بات سمجھنی ہے نہ سمجھانی ہے
عقل کو اور میں حیران نہیں کر سکتا
اپنے راجہ کو بچانے کیلئے منتری دوں؟؟؟
میں تو پیادہ بھی بلیدان نہیں کر سکتا
یار میں تجھکو تسلی نہیں دے سکتا ہوں
تیری مشکل کو جب آسان نہیں کر سکتا
یاد کے گہرے سمندر کو ابھی پار کروں؟
تیز ہے وقت کا طوفان,نہیں کر سکتا
تجھکو جانے کی اجازت نہیں دے سکتا ہوں
اپنی بستی کو میں ویران نہیں کر سکتا
رات کے بارہ بجے کال کروں میں تم کو؟؟
نیند پیاری ہے مری جان,نہیں کر سکتا
مجھ کو دنیا میں اتارا گیا ہے اس کے لئے
میں کسی اور طرف دھیان نہیں کر سکتا
No comments:
Post a Comment