Bol ke lab azad hain tere

Its hight time to unite ourselves to fight against all communal forces

Save India From BJP

Saturday, August 6, 2016

غزل

عشق کو ذات کا عنوان نہیں کر سکتا
روح کو اور پریشان نہیں کر سکتا

پیار میں اس نے وہی شرط رکھی ہے یارو
جس کو پورا کوئی انسان نہیں کر سکتا

مجھکو چہرے پہ لکھا پڑھنا نہیں آتا ہے
میں کسی شخص کی پہچان نہیں کر سکتا

یاد ماضی اگر آتی ہے یہی سوچتا ہوں
یار اتنا برا بھگوان نہیں کر سکتا

دل کی اب بات سمجھنی ہے نہ سمجھانی ہے
عقل کو اور میں حیران نہیں کر سکتا

اپنے راجہ کو بچانے کیلئے منتری دوں؟؟؟
میں تو پیادہ بھی بلیدان نہیں کر سکتا

یار میں تجھکو تسلی نہیں دے سکتا ہوں
تیری مشکل کو جب آسان نہیں کر سکتا

یاد کے گہرے سمندر کو ابھی پار کروں؟
تیز ہے وقت کا طوفان,نہیں کر سکتا

تجھکو جانے کی اجازت نہیں دے سکتا ہوں
اپنی بستی کو میں ویران نہیں کر سکتا

رات کے بارہ بجے کال کروں میں تم کو؟؟
نیند پیاری ہے مری جان,نہیں کر سکتا

مجھ کو دنیا میں اتارا گیا ہے اس کے لئے
میں کسی اور طرف دھیان نہیں کر سکتا

No comments:

Post a Comment