زخموں کا کردار نبھانے والا تھا
غم کی اک تصویر بنانے والا تھا
کشتی کو منجھدار میں لانے والا تھا
میں دریا کا دل بہلانے والا تھا
تم نے جس بادل کو بے غیرت سمجھا
صحرا میں پانی برسانے والا تھا
ایک پرندہ پھر اپنی بربادی کا
پیڑوں پر الزام لگانے والا تھا
غم کی بدلی چھائی تھی ہر سو ورنہ
میں سورج کو آنکھ دکھانے والا تھا
بس بستی کی باتیں کرنے والے کو
میں صحرا کا غم سمجھانے والا تھا
تم نے اتنی دیر سے دروازہ کھولا
لوٹ گیا,جو اندر آنے والا تھا
انعام عازمی
No comments:
Post a Comment