Bol ke lab azad hain tere

Its hight time to unite ourselves to fight against all communal forces

Save India From BJP

Saturday, November 26, 2016

غزل

جو چلا آتا ہے خوابوں کی طرفداری کو
اس نے دیکھا ہی نہیں عالم بیزاری کو

پیرہن چاک نہ ہو جائے مرے خوابوں کا
کوئی تبدیل کرے رسم عزاداری کو

چارہ گر جب تجھے احساس نہیں ہے تو پھر
کون سمجھے بھلا بیمار کی بیماری کو

میں نے سوچا تھا جو بکنے سے بچا لیں گے مجھے
دوڑ کر آئے  وہی میری خریداری کو

عالم خواب میں ہے جس کی حکومت یارو
وہ سمجھتا ہے بغاوت مری بیداری کو

دل کے صحرا کو سمندر سے بچا لے مولیٰ
اس قدر سہل نہ کر تو مری دشواری کو

کتنے بھولے ہیں تری بزم میں بیٹھے ہوئے لوگ
سچ سمجھتے ہیں سبھی تیری اداکاری کو

غزل

اے محبت تو مجھے درد جدائی نہیں دے
اپنے زندان میں رکھ مجھ کو رہائی نہیں دے

میں اگر دیکھنا چاہوں بھی تمارے سوا کچھ
بس اندھیرا ہو مجھے کچھ بھی دکھائی نہیں دے

یوں نہ ہو عشق کا دستور معطل ہو جائے
میرے محبوب مرے حق میں گواہی نہیں دے

لب اگر چاہیں غم عشق بیاں کرنے کو
شور اتنا ہو مجھے کچھ بھی سنائی نہیں دے

دل کو  آرام کسی طور نہیں ملنا ہے
درد بڑھنے دے مرے دوست دوائی نہیں دے

چل تو سکتا ہوں ترے ساتھ مگر ڈر ہے یہی
یہ سفر پھر سے مجھے آبلہ پائی نہیں دے

غزل

ہم درختوں کو اگر جڑ سے گرانے لگ  جائیں
ان پرندوں کے تو پھر ہوش ٹھکانے لگ جائیں

ہم سفر تو ہی بتا کیسا لگے گا تجھ کو
ہم بچھڑنے پہ اگر جشن مانے لگ جائیں

یہ بھی ہو سکتا ہے چپ چاپ تماشہ دیکھیں
یا سر بزم جنوں رقص دکھانے لگ جائیں

راہ لے ہمیں چھوڑ دے اے مست خرام
یوں نہ ہو ہم تجھے صحرا میں پھرانے لگ جائیں

یہ بھی ممکن ہے پلٹ کر نہیں دیکھیں تجھ کو
یہ بھی ممکن ہے تجھے دل میں بسانے لگ جائیں

یہ بھی ممکن ہے کہ خاموشی زباں بن جائے
یہ بھی ممکن ہے ہم شور مچانے لگ جائیں

یہ بھی ممکن ہے کہ ہم تجھ کو گوارا نہ کریں
یہ بھی ممکن ہوں ترا ناز اٹھانے لگ جائیں

یہ بھی ہو سکتا ہے ہم تیری کہانی سن لیں
یہ بھی ممکن ہے ہے تمہیں شعر سنانے لگ جائیں

غزل

لایے تھے عشق پر ہم  ایمان اس گلی میں
یعنی کئے تھے اپنا نقصان اس گلی میں

جینا نہیں ہے یارو آسان اس گلی میں
ہوتی ہے غم کی بارش ہر آن اس گلی میں

ہم اس گلی کے بارے میں کیا بتائیں تم کو
پھرتے ہیں لیکے کاسہ سلطان اس گلی میں

یہ سوچ کر پجارن بیٹھی ہوئی ہے کب سے
مل جائیں گے کسی دن بھگوان اس گلی میں

تاثیر روح میں بھی پھیلی ہوئی ہے یارو
کھایا تھا اس کے ہاتھوں اک پان اس گلی میں

واقف نہیں ہے کوئی اس رمز سے یہاں پہ
ہم نے کیا ہے خود کو قربان اس گلی میں

غالب وہیں محبت سے آشنا ہوئے تھے
لکھا تھا میر نے بھی دیوان اس گلی میں

آوارگی مقدر شاید نہیں تھی پہلے
ہم کو ملی ہے ساری پہچان اس گلی میں

روشن تھے جو ابد سے سارے چراغ بجھ گئے
آیا ہے جانے کیسا طوفان اس گلی میں

اے دوست خامشی کا ہے اب وہاں بسیرا
رہتا نہیں ہے کوئی انسان اس گلی میں

غزل

میرے سینے میں گھٹن چھوڑ گیا
پھر کوئی مجھ میں چبھن چھوڑ گیا

تھا درختوں کو بھروسہ جس پر
وہ پرندہ بھی چمن چھوڑ گیا

نامہ بر سوچ کہ کیوں کر کوئی
سانس رہتے ہی بدن چھوڑ گیا

اس کی باتوں میں چلا آیا میں
مجھ کو باتوں میں مگن چھوڑ گیا

میں نے بس یونہی کہا تھا جاؤ
وہ مجھے واقعتاً چھوڑ گیا

غزل

تجھ سے اب تیرے طرفدار لڑائی کریں گے
اے محبت ترے بیمار لڑائی کریں گے

بیچنے والا ترا کہہ کے مجھے بیچے گا
اور آپس میں خریدار لڑائی کریں گے

سارے معصوم صفت جنگ میں مر جائیں گے
جب بھی دو قوم کے سردار لڑائی کریں گے

جاہلو!! منبرو محراب سنبھالو جاکر
شیخ اب بر سر بازار لڑائی کریں گے

کوئی الزام نہیں آئے گا سورج پہ کبھی
اب تو سائے پس دیوار لڑائی کریں گے

آج کی رات اگر ابر علم چھٹ جائے
دیکھنا چاند سے غمخوار لڑائی کریں گے

تونے کس خاک سے ایجاد کیا ہے ان کو
کوزہ گر تجھ سے عزادار لڑائی کریں گے

تو ہمیں بانٹ کے اک روز چلا جائے گا
اور ہم خود سے لگاتار لڑائی کریں گے

Thursday, November 17, 2016

نظم

خدارا!!!

زندگی کی قید سے مجھکو رہائی دے

مری آنکھوں کے سارے خواب
پلکوں سے  اتر کر  درد کے صحرا میں جا پہنچے

مرے  دل کے نہاں خانے میں 
ساری حسرتوں نے خودکشی کرلی

وہ سارے لوگ جو اپنائیت کا ڈھونگ رچتے تھے

مرے جزبوں کا استحصال کرتے تھے

مرے چاروں طرف موجود ہیں اب بھی

مگر اب اپنے اصلی پیرہن میں ہیں

انا کی جنگ میں
دل کے سبھی رشتوں نے اپنی جان دے دی
زخم اب ناسور بن گئے ہیں

کسی بے نام منزل کی تمنا میں
میں کب تک درد کے صحراؤں میں پھرتا رہوں,انجان رستے پر چلوں

میں کب تک اپنی بکھری  ہستی کو سمیٹوں
خواہشوں کے قبر پر دن رات یونہی فاتحہ پڑھتا رہوں

مجھے جینے کی خواہش تھی
مگر اب زندگی کوہ گراں ہے

مرے معبود اب مجھکو رہائی دے

مجھے آزاد کردے زندگی کی قید سے مولیٰ

انعام عازمی