میرے سینے میں گھٹن چھوڑ گیا
پھر کوئی مجھ میں چبھن چھوڑ گیا
تھا درختوں کو بھروسہ جس پر
وہ پرندہ بھی چمن چھوڑ گیا
نامہ بر سوچ کہ کیوں کر کوئی
سانس رہتے ہی بدن چھوڑ گیا
اس کی باتوں میں چلا آیا میں
مجھ کو باتوں میں مگن چھوڑ گیا
میں نے بس یونہی کہا تھا جاؤ
وہ مجھے واقعتاً چھوڑ گیا
No comments:
Post a Comment