لایے تھے عشق پر ہم ایمان اس گلی میں
یعنی کئے تھے اپنا نقصان اس گلی میں
جینا نہیں ہے یارو آسان اس گلی میں
ہوتی ہے غم کی بارش ہر آن اس گلی میں
ہم اس گلی کے بارے میں کیا بتائیں تم کو
پھرتے ہیں لیکے کاسہ سلطان اس گلی میں
یہ سوچ کر پجارن بیٹھی ہوئی ہے کب سے
مل جائیں گے کسی دن بھگوان اس گلی میں
تاثیر روح میں بھی پھیلی ہوئی ہے یارو
کھایا تھا اس کے ہاتھوں اک پان اس گلی میں
واقف نہیں ہے کوئی اس رمز سے یہاں پہ
ہم نے کیا ہے خود کو قربان اس گلی میں
غالب وہیں محبت سے آشنا ہوئے تھے
لکھا تھا میر نے بھی دیوان اس گلی میں
آوارگی مقدر شاید نہیں تھی پہلے
ہم کو ملی ہے ساری پہچان اس گلی میں
روشن تھے جو ابد سے سارے چراغ بجھ گئے
آیا ہے جانے کیسا طوفان اس گلی میں
اے دوست خامشی کا ہے اب وہاں بسیرا
رہتا نہیں ہے کوئی انسان اس گلی میں
No comments:
Post a Comment