تمہیں یہ کس نے کہا ہم شراب پی رہے تھے
ہمارے دل کے سبھی غم شراب پی رہے تھے
عجیب بات تھی جو لوگ پی نہ سکتے تھے
تمہارے ہجر میں پیہم شراب پی رہے تھے
خدائے جبر نے ایسی سزا سنائی تھی
ہم ایک موڑ پہ باہم شراب پی رہے تھے
تمام عمر مجھے درد نے رلایا تھا
ملا نہ زخم کو مرہم شراب پی رہے تھے
کسی نے توڑ دیا تھا گمان کا مندر
تھا احتجاج کا موسم شراب پی رہے تھے
تمہارا ہجر مناے کی آرزو تھی. سو ہم
تمہاری یاد میں ہر دم شراب پی رہے تھے
میں جانتا ہوں کہ پینا حرام ہے لیکن
تھے اپنی ذات سے برہم شراب پی رہے تھے
انعام عازمی
No comments:
Post a Comment