Bol ke lab azad hain tere

Its hight time to unite ourselves to fight against all communal forces

Save India From BJP

Thursday, November 17, 2016

نظم

*آخری نظم*

ملامت گر!!
بہت مایوس بیٹھے ہو
ہوا کیا ہے
مربی!!
میں  کسی گمنام منزل کا مسافر تھا
سدا انجان رستوں پہ بھٹکتا تھا
انہیں انجان رستوں پر مجھے غالب ملے...حسرت ملے...ساحر ملے
جون اور ناصر نے سمجھایا
کہ میں یعنی ملامت گر
ادب کے آنے والے دور کا تنہا  ستارا ہوں
مجھے ان کا ادھورا کام کرنا ہے
پرندوں کو درختوں سے ملانا ہے
مجھے دریا سے جاکر دل لگانا ہے
سبھی دیواریں مجھکو توڑنی ہیں اور نیا رستہ بنانا ہے
مجھے صحراؤں کے دل میں اترنا ہے
سو آدم زاد یعنی جون نے مجھ کو نئے  رستے پہ لاکر رکھ دیا
اور میں
نئی منزل کی جانب بارہا یہ سوچ کر بڑھتا رہا
مجھ کو ادھورا کام کرنا ہے
مربی سن!!
ادب کی سرزمیں پہ میں نے جب پہلا قدم رکھا
وہاں موجود لوگوں نے مجھے دل سے لگایا
اپنی پلکوں پر بٹھایا اور محبت دی

ابھی کچھ دن ہی گزرے تھے
کہ میں یعنی ملامت گر
اداسی کے سبھی منظر کو لفظی پیرہن دینے لگا
جو اپنی ذات میں ٹوٹے ہوئے تھے ان کا نوحہ بھی لکھا
ادب کے نام پر عریانیت پھیلا رہے تھے جو
انہیں ٹوکا
سدا بے بحر مصرع کو ترنم میں سجا کر گا رہے تھے
جو انہیں ٹوکا
کسی کی آنکھ تارا بنا  اور میں کسی روح کو چبھنے لگا
سو اک دن علمی بونوں نے
ادب کی بزم میں لاکر
مجھے
یعنی ملامت گر کو سمجھایا

میاں تعظیم کر ان کی
جو نثری نظم لکھ کر خود کو شاعر مانتے ہیں
ادب کی محفلوں میں جو اداکاری دکھاتے ہیں
جو حوا کو سر بازار لانا چاہتے ہییں

مربی!! آج میں
یعنی ملامت گر
ملامت بھیجتا ہوں اور یہ اقرار کرتا ہوں
ادب کی یہ نئی دنیا مرے لائق نہیں ہے
میں کسی گمنام منزل کی تمنا میں کسی انجان رستے پر بھٹکنا چاہتا ہوں پھر

انعام

No comments:

Post a Comment