اے محبت تو مجھے درد جدائی نہیں دے
اپنے زندان میں رکھ مجھ کو رہائی نہیں دے
میں اگر دیکھنا چاہوں بھی تمارے سوا کچھ
بس اندھیرا ہو مجھے کچھ بھی دکھائی نہیں دے
یوں نہ ہو عشق کا دستور معطل ہو جائے
میرے محبوب مرے حق میں گواہی نہیں دے
لب اگر چاہیں غم عشق بیاں کرنے کو
شور اتنا ہو مجھے کچھ بھی سنائی نہیں دے
دل کو آرام کسی طور نہیں ملنا ہے
درد بڑھنے دے مرے دوست دوائی نہیں دے
چل تو سکتا ہوں ترے ساتھ مگر ڈر ہے یہی
یہ سفر پھر سے مجھے آبلہ پائی نہیں دے
No comments:
Post a Comment