نہ جانے کون سا قصہ سنا رہا تھا مجھے
وہ ہنس رہا تھا مگر اس کی آنکھ بھر چکی تھی
میں تجھ سے کیسے بتاؤں کہ عمر کیسے کٹی
میں جی رہا تھا مگر زندگی گزر چکی تھی
اے میرے دوست مرے ٹوٹنے بکھرنے کا
قصور وار فقط دل تھا,عقل مر چکی تھی
میں کیسے دل کو بچاتا تباہ ہونے سے
زمین دل پہ وہ دلکش پری اتر چکی تھی
No comments:
Post a Comment