زخمی ہے روح آنکھوں میں پانی ابھی بھی ہے
جو کچھ نہیں ہے اس کی نشانی ابھی بھی ہے
زندہ نہیں ہوں زندگی پھر بھی ہے ساتھ ساتھ
کردار مر گیا ہے کہانی ابھی بھی ہے
اک شخص آگیا ہے نیا ہم کو اس سے کیا
کمرے میں ساری چیز پرانی ابھی بھی ہے
امید کی لکیر سبھی مٹ گئی مگر
دل اس کے انتظار میں جانی ابھی بھی ہے
بارات وحشتوں کی بھلا کیسے پار جائے
دریائے ذہن و فکر میں پانی ابھی بھی ہے
ہے داستان عشق یہی مختصر انعام
راجا کا قتل ہو گیا رانی ابھی بھی ہے
انعام
No comments:
Post a Comment