دل ہے اسیر یاس کہاں جائیں بولیے
ہے روح بھی اداس کہاں جائیں بولئے
اس شہر نامراد سے رخصت ہوا ہے جو
تھا زندگی کی آس,کہاں جائیں بولیے
پہلے ہم اس کی یاد سے کرتے تھے گفتگو
وہ بھی نہیں ہے پاس کہاں جائیں بولیے
دل تو فراق یار میں مرنے کو ہے بضد
ہے کون غم شناس کہاں جائیں بولیے
آئے گی پھر بہار چمن میں خزاں کے بعد
یہ ہے محض قیاس کہاں جائیں بولیے
صحرا میں لا کے چھوڑ گئی زندگی ہمیں
ہے مدتوں کی پیاس کہاں جائیں بولیے
یادوں کی تیز دھوپ ہے ہر سمت شہر میں
ہے زخم بے لباس کہاں جائیں بولیے
No comments:
Post a Comment