آتی ہے اب کدھر سے ہوا ہم کو اس سے کیا
کیوں بجھ گیا چراغ وفا ہم کو اس سے کیا
تم کو خوشی سے واسطہ ہے اے مرے عزیز
ہم ہیں اسیر رنج و بلا ہم کو اس سے کیا
جب ہم نے دی صدا تو رکا ہی نہیں کوئی
اب دے رہا ہے کون صدا ہم کو اس سے کیا
اس شہر حادثات میں جینا کمال ہے
کیوں چاک ہو گئی ہے قبا ہم کو اس سے کیا
اب وہ بھی وہ نہیں رہا نہ ہم ہی ہم رہے
رشتہ جو درمیان میں تھا ہم کو اس سے کیا
جب چارہ گر نہیں رہا اس شہر میں کوئی
کس نے دیا ہے زخم نیا ہم کو اس سے کیا
اب بھی وہ شخص جان سے زیادہ عزیز ہے
گو لاکھ ہم لگائیں صدا "ہم کو اس سے کیا"
انعام عازمی
No comments:
Post a Comment