گرے گی سر سے تو پگڑی نہیں اٹھاؤں گا
میں جھک کے چیز کوئی بھی نہیں اٹھاؤں گا
میں جانتا ہوں قبیلے میں سب منافق ہیں
سو میں کسی پہ بھی انگلی نہیں اٹھاؤں گا
مری انا بھی اجازت مجھے اگر دے دے
ضمیر بیچ کے کچھ بھی نہیں اٹھاؤں گا
قبیلہ عشق کے حاکم سے جاکے کہہ دو یہ
میں اس کے پاپ گٹھری نہیں اٹھاؤں گا
میں اپنے شبد سے دشمن کی جان لے لوں گا
میں اپنے ہاتھ میں برچھی نہیں اٹھاؤں گا
میں خوش ہوں اس کی ودائی پہ اور دعا گو ہوں
مگر میں یار کی ڈولی نہیں اٹھاؤں گا
مجھے امیر بنایا گیا ہے قافلہ کا
میں تیز دھوپ میں چھتری نہیں اٹھاؤں گا
جو دیکھنا ہے اسے سامنے سے دیکھوں گا
نظر کسی پہ بھی ترچھی نہیں اٹھاؤں گا
انعام عازمی
No comments:
Post a Comment