غزل
ہم نے پلکوں پہ کبھی غم کی نمائش نہیں کی
درد میں ڈوبے رہے ہجر کی خواہش نہیں کی
دل کی بستی میں رہا غم کا بسیرا ہر دم
میرے قسمت کے ستاروں نے بھی گردش نہیں کی
خواب سب ڈوب گئے درد کی برساتوں میں
کون کہتا ہے مری آنکھوں نے بارش نہیں کی
مجھ سے کہتا تھا مرا ساتھ نبھائے گا وہ
ٹوٹ جانے پہ بھی کم بخت نے پرشش نہیں کی
غم کے صحرا میں بھٹکتے رہے تا عمر مگر
منصف وقت سے کوئی بھی گزارش نہیں کی
ہم اگر چاہتے ہر فاصلہ مٹ سکتا تھا
وہ بھی آگے نہ بڑھا میں نے بھی کوشش نہیں کی
انعام
No comments:
Post a Comment